واسطے  حضرت  مرادِ  نیک  نام      عشق  اپنا  دے  مجھے  رب  الانعام        اپنی  الفت  سے  عطا  کر  سوز  و  ساز       اپنے  عرفاں  کے  سکھا  راز  و  نیاز      فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہر  گھڑی  درکار  ہے         فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہو  تو    بیڑا  پار  ہے    

    

حضرت  محمد مراد علی خاں رحمتہ  اللہ  علیہ 

 حضرت پیران پیر غوث اعظم عبدالقادر جیلانی

رحمتہ اللہ علیہ

 حضرت شیخ عبد القادر جیلانی   رحمتہ اللہ علیہ    ۴۷۰ ہجری یا ۴۷۱ ہجری  میں صوبہ گیلان کے بشتیر نامی شہر میں پیدا ہوئے آپ  رحمتہ اللہ علیہ    کا نام عبد القادر بن ابی صالح جنگی دوست بن عبد اللہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آپ  رحمتہ اللہ علیہ    کا نسب حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔آپ کا مشہور لقب محی الدین اور کنیت ابو عبد اللہ ہے۔  آپ کو پیران پیر، غوث اعظم، غوث پاک، قطب الاقطاب جیسے القاب سے یاد کیا جاتا ہے ۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

آپ   رحمتہ اللہ علیہ   کی ابتدائی تعلیم سے متعلق مستند کتب تاریخ خاموش ہیں، بعض کتب سے اتنا پتہ چلتا ہے کہ آپ کا خاندان ایک علمی خاندان تھا، آپ کے شہر کے لوگ مذہب حنبلی پر قائم تھے اور آپ نے بغداد کے سفر سے پہلے قرآن مجید وغیرہ کی تعلیم حاصل کرلی تھی۔

اس وقت بغداد جہاں مسلمانوں کا سیاسی مرکز تھا وہیں ایک علمی و ثقافتی مرکز بھی تھا، اس لئے شیخ   رحمتہ اللہ علیہ   نے ابتدائے عمر ہی میں بغداد کا قصد کیا۔ مورخین لکھتے ہیں کہ ۴۸۸ ہجری ایام جوانی میں آپ بغداد وارد ہوئے اس وقت آپ کی عمر ۱۷ یا ۱۸سال تھی۔ بغداد میں آپ نے   آپ نے علم حدیث ابو غالب محمد بن الحسن الباقلانی ، جعفر بن احمد السراج ، ابو سعد محمد بن عبد الکریم بن حشیش بغدادی  اور احمد بن المظفربن حسن بن سوسن جیسے ائمہ فن سے لیا۔علم فقہ و اصول میں آپ کے بعض مشہور اساتذہ کے نام درج ذیل ہیں:- ابوسعد المخرمی حنبلی ،ابوالخطاب الکلوباذی حنبلی ، اور ابو الوفا ابن عقیل حنبلی ۔علوم ظاہریہ کے ساتھ ساتھ آپ کی توجہ علم باطن کی طرف بھی تھی جس کی ابتدائی تعلیم اپنے فقہ کے استاد ابو سعدم المخزومی سے لی ۔

علم ظاہر و باطن کی تکمیل کے بعد آپ  رحمتہ اللہ علیہ    کا خیال ہوا کہ آبادی کو چھوڑ کر کہیں جنگل و صحراء میں چلےجائیں اور وہاں رہ کر عبادت و ریاضت میں مشغول رہیں ،کیونکہ اس وقت بغداد سخت سیاسی کشمکش کا شکار تھا، سلجوقی سلاطین عباسی سلطنت کو ختم کرنا چاہتے تھے آپ کےشاگرد عبد اللہ بن ابو الحسن الجبائی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے شیخ عبد القادر جیلانی نے بیان فرمایا کہ میری خواہش تھی کہ میں صحراؤں اور جنگلوں میں نکل جاؤں اور وہیں رہ کر عبادت و ریاضت میں مشغول رہوں نہ مخلوق مجھے دیکھے اور نہ میں لوگوں کو دیکھوں، لیکن اللہ تعالی کو میرے ذریعہ اپنے بندوں کا نفع منظور تھا چنانچہ میرے ہاتھ پر پچاس ہزار سے زائد یہودی اور عیسائی مسلمان ہوچکے ہیں اور عیاروں اور جرائم پیشہ لوگوں میں سے ایک لاکھ سے زائد توبہ کرچکے ہیں یہ اللہ تعالی کی بڑی نعمت ہے۔

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی   رحمتہ اللہ علیہ   سے بہت زیادہ کرامات ظہور پذیر ہوئیں لیکن ہم یہاں صرف چند کا ذکر کریں گے۔

ابوسعد عبداللہ بن احمد کا بیان ہے، ایک بار میری لڑکی فاطمہ گھر کی چھت پر سے یکایک غائب ہوگئی۔ میں نے پریشان ہو کر سرکار بغداد حضور سیدنا غوث پاک رضی اللہ عنہ کی خدمت بابرکت میں حاضر ہو کر فریاد کی۔ آپ نے ارشاد فرمایا، کرخ جاکر وہاں کے ویرانے میں رات کے وقت ایک ٹیلے پر اپنے ارد گرد حصار (یعنی دائرہ) باندھ کر بیٹھ جاؤ۔ وہاں میرا تصور باندھ لینا اور بسم اللہ کہہ  کر کہنا۔ رات کے اندھیرے میں تمہارے اردگرد جنات کے لشکر گزریں گے، ان کی شکلیں عجیب و غریب ہوں گی، انہیں دیکھ کر ڈرنا نہیں، سحری کے وقت جنات کا بادشاہ تمہارے پاس حاضر ہوگا اور تم سے تمہاری حاجت دریافت کرے گا۔ اس سے کہنا، “ مجھے شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ نے بغداد سے بھیجا ہے تم میری لڑکی کو تلاش کرو۔“

چنانچہ میں کرخ کے ویرانے میں چلا گیا اور حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کیا۔ رات کے سناٹے میں خوفناک جنات میرے حصار کے باہر گزرتے رہے۔ جنات کی شکلیں اس قدر ہیبت ناک تھیں کہ مجھ سے دیکھی نہ جاتی تھیں۔ سحری کے وقت جنات کا بادشاہ گھوڑے پر سوار آیا اس کے ارد گرد بھی جنات کا ہجوم تھا۔ حصار کے باہر ہی اس نے میری حاجت دریافت کی۔ میں نے بتایا کہ مجھے حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ نے تمہارے پاس بھیجا ہے۔ اتنا سننا تھا کہ ایک دم وہ گھوڑے سے اتر آیا اور زمین پر بیٹھ گیا۔ دوسرے سارے جن بھی دائرے کے باہر بیٹھ گئے۔ میں نے اپنی لڑکی کی گمشدگی کا واقعہ سنایا۔ اس نے تمام جنات میں اعلان کیا کہ لڑکی کو کون لے گیا ہے؟ چند ہی لمحوں میں جنات نے ایک چینی جن کو پکڑ کر بطور مجرم حاضر کردیا۔ جنات کے بادشاہ نے اس سے پوچھا قطب وقت کے شہر سے تم نے لڑکی کیوں اٹھائی ؟ وہ کانپتے ہوئے بولا، عالی جاہ! میں اسے دیکھتے ہی اس پر عاشق ہوگیا تھا۔ بادشاہ نے اس چینی جن کی گردن اڑانے کا حکم صادر کیا اور میری پیاری بیٹی میرے سپرد کردی۔

(بہجۃ الاسرارومعدن الانوار، ص140، دارالکتب العلمیۃ بیروت)

ایک غمگین نوجوان نے آکر بارگاہ غوثیت میں فریاد کی، یاسیدی ! میں نے اپنے والد مرحوم کو رات خواب میں دیکھا، وہ کہہ رہے تھے “بیٹا! میں عذاب قبر میں مبتلا ہوں، تو سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر میرے لئے دعا کی درخواست کر“۔ یہ سن کر سرکار بغداد حضور غوث پاک علیہ رحمۃ اللہ الاکرم نے استفسار فرمایا، کیا تمہارے ابا جان میرے مدرسے سے کبھی گزررے ہیں؟ اس نے عرض کیا، جی ہاں۔ بس آپ خاموش ہوگئے۔ وہ جوان چلا گیا۔ دوسرے روز خوش خوش حاضر خدمت ہوا اور کہنے لگا، یا مرشد! آج رات والد مرحوم سبز حلہ (یعنی سبز لباس) زیب تن کئے خواب میں تشریف لائے وہ بے حد خوش تھے۔ “بیٹا! سیدنا شیخ عبد االقادر جیلانی کی برکت سے مجھ سے عذاب دور کر دیا گیا ہے اور یہ سبز حلہ بھی ملا ہے۔ میرے پیارے بیٹے! تو ان کی خدمت میں رہا کر“۔ یہ سن کر آپ رحمۃ تعالٰی علیہ نے فرمایا، میرے رب عزوجل نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ جو مسلمان تیرے مدرسے سے گزرے گا اس کے عذاب میں تحفیف کی جائے گی۔ (ایضاً ص194)

ایک بار بارگاہ غوثیت مآب رحمۃ التواب میں حاضر ہو کر لوگوں نے عرض کی، عالی جاہ! “باب الازج“ کے قبرستان میں ایک قبر سے مردے کے چیخنے کی آوازیں آرہی ہیں۔ حضور! کچھ کرم فرمادیں کہ بے چارے کا عذاب دور ہوجائے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ارشاد فرمایا، کیا اس نے مجھ سے خرقہء خلافت پہنا ہے؟ لوگوں نے عرض کی ہمیں معلوم نہیں۔ فرمایا، کیا اس نے کبھی میرا کھانا کھایا؟ لوگوں نے پھر لاعلمی کا اظہار کیا آپ نے پوچھا، کیا اس نے کبھی میرے پیچھے نماز ادا کی؟ لوگوں نے وہی جواب دیا۔ آپ نے ذرا سا سر اقدس جھکا یا تو آپ پر جلال و وقار کے آثار ظاہر ہوئے۔ کچھ دیر کے بعد آپ نے فرمایا، مجھے ابھی ابھی فرشتوں نے بتایا کہ “ اس نے آپ کی زیارت کی ہے اور آپ سے اسے عقیدت بھی تھی لہٰذا اللہ تبارک و تعالٰی نے اس پر رحم کیا“۔ الحمد اللہ عزوجل اس کی قبر سے آوازیں آنا بند ہوگئیں (ایضاً ص194)

سگ مدینہ عفی عنہ کے آبائی گاؤں کتیانہ (گجرات، الھند) کا ایک واقعہ کسی نے سنایا تھا کہ وہاں ایک غوث پاک کا دیوانہ رہا کرتا تھا جو کہ گیارہویں شریف نہایت ہی اہتمام سے مناتا تھا۔ ایک خاص بات اس میں یہ بھی تھی کہ وہ سیدوں کی بے حد تعظیم کرتا، ننھے منے سیدزادوں پر شفقت کا یہ حال تھا کہ انہیں اٹھائے اٹھائے پھرتا اور انہیں شیرینی وغیرہ خرید کر پیش کرتا۔ اس دیوانے کا انتقال ہوگیا۔ میت پر چادر ڈالی ہوئی تھی، سوگوار جمع تھے کہ اچانک چادر ہٹا کر دیوانہ اٹھ بیٹھا۔ لوگ گھبرا کر بھاگ کھڑے ہوئے، اس نے پکار کر کہا، ڈرومت، سنو تو سہی! لوگ جب قریب آئے تو کہنے لگا، “ بات بات دراصل یہ ہے کہ ابھی ابھی میرے گیارہویں والے آقا، پیروں کے پیر، پیر دستگبیر، روشن ضمیر، قطب ربانی، محبوب سبحانی، غوث الصمدانی، قندیل نورانی، شہباز لامکانی، پیر پیراں، میر میراں الشیخ ابو محمد عبد القادر جیلانی قدس سرہ الربانی تشریف لائے تھے، انہوں نے مجھے ٹھوکر لگائی اور فرمایا، ہمارا مرید ہو کر بغیر توبہ کئے مرگیا! اٹھ اور توبہ کرلے۔ لٰہذا مجھ میں روح لوٹ آئی ہے تاکہ میں توبہ کرلوں۔“ اتنا کہنے کے بعد دیوانے نے اپنے تمام گناہوں کی توبہ کی اور کلمہء پاک کا ورد کرنے لگا۔ پھر اچانک اس کا سر ایک طرف ڈھلک گیا اور اس کا انتقال ہوگیا۔ (الاخبار الاخیار، ص19، فاروق اکیڈمی ضلع خیرپور)

حضرت سیدنا عمر بن بزاز رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں، ایک بار جمعۃ المبارک کے روز میں حضور غوث اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کے ساتھ جامع مسجد کی طرف جارہا تھا، میرے دل میں خیال آیا کہ حیرت ہے جب بھی میں مرشد کے ساتھ جمعہ کو مسجد کی طرف آتا ہوں تو سلام و مصافحہ کرنے والوں کی بھیڑ بھاڑ کے سبب سے گزرنا مشکل ہوجاتا ہے، مگر آج کوئی نظر تک اٹھا کر نہیں دیکھتا! میرے دل میں اس خیال کا آنا ہی تھا کہ حضور غوث اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم میری طرف دیکھ کر مسکرائے اور بس، پھر کیا تھا! لوگ لپک لپک کر سرکار بغداد سے مصافحہ کرنے کے لئے آنے لگے۔ یہاں تک کہ میرے اور مرشد کریم علیہ رحمۃ اللہ الرحیم کے درمیان ایک ہجوم حائل ہوگیا۔ میرے دل میں آیا کہ اس سے تو وہی حالت بہتر تھی۔ دل میں یہ خیال آتے ہی آپ نے مجھ سے فرمایا:“ اے عمر! تم ہی تو ہجوم کے طلبگار تھے، تم جانتے نہیں کہ لوگوں کے دل  تو میری مٹھی میں ہیں اگر چاہوں تو اپنی طرف مائل کرلوں اور چاہوں تو دور کر دوں۔ (زبدۃ الاثار مترجم، ص94، مکتبہ نبویہ لاہور) 

حضرت بشر قرظی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا بیان ہے کہ میں شکر سے لدے ہوئے 14اونٹوں کے ایک تجارتی قافلے کے ساتھ تھا۔ ہم نے رات ایک خوف ناک جنگل میں پڑاؤ کیا۔ رات کے ابتدائی حصے میں میرے چار لدے ہوئے اونٹ لا پتا ہوگئے جو تلاش بسیار کے باوجود نہ ملے۔ قافلہ بھی کوچ کر گیا، شتربان میرے ساتھ رک گیا۔ صبح کے وقت مجھے اچانک یاد آیا کہ میرے پیرومرشد سرکار بغداد حضور غوث پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے مجھ سے فرمایا تھا “جب بھی تو کسی مصیبت میں مبتلا ہو جائے تو مجھے پکار ان شاءاللہ عزوجل وہ مصیبت جاتی رہے گی“ چنانچہ میں نے یوں فریاد کی : “یا شیخ عبدالقادر! میرے اونٹ گم ہوگئے ہیں۔“ یکایک جانب مشرق ٹیلے پر مجھے سفید لباس میں ملبوس ایک بزرگ نظر آئے جو اشارے سے مجھے اپنی جانب بلار ہے تھے۔ میں اپنے شتربان کو لے کر جوں ہی وہاں پہنچا کہ یکایک وہ بزرگ نگاہوں سے اوجھل ہوگئے۔ ہم ادھر ادھر حیرت سے دیکھ ہی رہے تھے کہ اچانک وہ چاروں گمشدہ اونٹ ٹیلے کے نیچے بیٹھے ہوئے نظر آئے۔ پھر کیا تھا ہم نے فوراً انہیں پکڑ لیا اور اپنے قافلے سے جاملے۔

سیدنا شیخ ابو الحسن علی خباز رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو جب گمشدہ اونٹوں والا واقعہ بتایا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ مجھے حضرت شیخ ابو القاسم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے بتایا کہ میں نے سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی قدس سرہ الربانی کو فرماتے سنا ہے :۔ جس نے کسی مصیبت میں مجھ سے فریاد کی وہ مصیبت جاتی رہی، جس نے کسی سختی میں میرا نام پکارا وہ سختی دور ہوگئی، جو میرے وسیلے سے اللہ عزوجل کی بار گاہ میں اپنی حاجت پیش کرے وہ حاجت پوری ہوگئی۔ جو شخص دو (2) رکعت نفل پڑھے اور ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد قل ھو اللہ شریف گیارہ گیارہ بار پڑھے، سلام پھیرنے کے بعد سرکار مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم پر دورود و سلام بھیجے پھر بغداد شریف کی طرف گیارہ قدم چل کر میرا نام پکارے اور اپنی حاجت بیان کرے ان شاءاللہ عزوجل وہ حاجت پوری ہوگئی“۔ (بہجۃ الاسرار و معدن الانوار، ص194۔197، دارالکتب العلمیۃ بیروت)

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی   رحمتہ اللہ علیہ    کا جب آخری وقت قریب آیا تو اپنے بیٹے عبد الوہاب وصیت کی کہ تم ہمیشہ اللہ تعالی سے ڈرتے رہنا اس کے علاوہ کسی اور سے نہ ڈرنا اور نہ اس کے سوا کسی سے امید رکھنااپنی تمام ضروریات صرف اسی کے حوالے کرنا اسی سے طلب کرنا اس کے علاوہ کسی اور پر اعتماد و بھروسہ نہ رکھنا توحید کو لازم پکڑنا کیونکہ توحید ہر کام کی جامع ہے۔ زندگی کے آخری لمحات کا منظر ان کے صاحبزادے عبد الجبار بیان کرتے ہیں کہ جب والد کا مرض بڑھ گیا اور تکلیف زیادہ محسوس ہونے لگی تو میں نے پوچھا کہ آپ کے جسم میں کہاں تکلیف ہے؟ کہنے لگے میرے تمام اعضا مجھے تکلیف دے رہے ہیں مگر میرے دل کو کوئی تکلیف نہیں ہے اس  کا  اللہ تعالی کے ساتھ اس کا تعلق صحیح ہے ، پھر جب آخری وقت آگیا تو آپ فرمانے لگے میں اس اللہ سے مدد چاہتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ پاک و برتر ہے، زندہ ہے اور اس پر موت کے طار ی ہونے کا اندیشہ نہیں ہے وہ پاک ہے وہ ایسی ذات ہے جس نے اپنی قدرت سے قوت ظاہر کی اور ہمیں موت دے کر بندوں پر اپنا غلبہ دکھایا ، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔

               حضرت شیخ عبد القادر جیلانی   رحمتہ اللہ علیہ   تقریبا چالیس سال تک علم کے پیاسوں کو سیراب کرکے، اپنے ظاہری و باطنی کمالات سے ایک عالم کو مستفید کرکے، بہت سے مردہ دلوں کو زندگی بخش کے عالم بقاکی طرف کوچ کرگئے۔ چنانچہ ربیع الاول ۵۴۱ ہجری بروز ہفتہ دنیا کو روشن کرنے والا یہ چراغ خود بجھ گیا۔ اس وقت ان کی عمر ۹۰ سال کے قریب تھی۔ آپ کی وفات ہفتہ کے دن شام کو ہوئی اور اسی رات تغسیل و تکفین کے بعد اسی مدرسہ کے ایک گوشے میں نماز جنازہ کے بعد سپرد خاک  کردیا گیا۔